
ہر شام تری یاد میں جلنا پڑا ہے
اک شمع کی مانند پگھلنا پڑا ہے
کیا خوب تھا وہ دور، وہ لمحے، وہ گھڑیاں
اب ہجر کی راہوں پہ سنبھلنا پڑا ہے
چاہا تھا کہ روکیں گے قدم، پر نہ رکے وہ
قسمت کے لکھے کو تو بدلنا پڑا ہے
تھی اپنی ہی کم ظرفی، یا وقت کی سازش؟
ہر خواب حقیقت میں اچھلنا پڑا ہے
اب آرزو بس ہے کہ اک پل کو رک جائیں
طوفان میں کب تک یونہی چلنا پڑا ہے
اے دل! نہ کر گلہ کہ یہ دنیا ہے فانی
ہر ذرے کو آخر میں نکلنا پڑا ہے
0 Comments