Hunza Ki Zara (محبت کی وادی)


**محبت کی وادی — ہنزہ کی زارا**

ہنزہ، جہاں آسمان زمین سے باتیں کرتا ہے، جہاں پہاڑوں کی چپ میں بھی ایک موسیقی ہے، وہیں ایک لڑکی رہتی تھی — زارا۔

زارا نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ اس کے دل میں بھی قدرت کی طرح سادگی، معصومیت اور محبت بسی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نیلگوں جھیلوں کی گہرائی، بالوں میں وادیوں کی مہک اور مسکراہٹ میں صبح کے سورج جیسی چمک تھی۔ وہ ہنزہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی اور گاؤں کے اسکول میں بچوں کو پڑھاتی تھی۔

ایک دن اسلام آباد سے ایک فوٹوگرافر، ارحم، ہنزہ کی قدرتی خوبصورتی کو کیمرے میں قید کرنے آیا۔ وہ ہنزہ کی وادیوں، جھیلوں، اور لوگوں کی زندگی کو تصویروں کے ذریعے محفوظ کر رہا تھا۔ تب ہی اس کی ملاقات زارا سے ہوئی۔ پہلی نظر میں ہی ارحم کو زارا کی سادگی اور مسکراہٹ نے کچھ ایسا چھو لیا کہ وہ اسے بھول نہ سکا۔

زارا شروع میں خاموش رہی، اس کا دل کسی اجنبی سے بندھنے کو تیار نہ تھا، لیکن ارحم کے سچے جذبے، خلوص اور احترام نے رفتہ رفتہ زارا کے دل کی دیواریں گرا دیں۔

وہ دونوں اکثر شام کو قراقرم کے دامن میں بیٹھ کر باتیں کرتے۔ زارا اپنی خوابوں کی دنیا بیان کرتی، اور ارحم ہر خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کا وعدہ کرتا۔ محبت ان کے بیچ خاموشی سے پروان چڑھتی گئی — بنا کسی شور کے، جیسے ہنزہ کی ہوائیں۔

لیکن ارحم کو واپس جانا تھا۔ شہر کی زندگی، کیمرے، پروجیکٹس اور خواب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ جانے سے پہلے اس نے زارا سے وعدہ کیا کہ وہ لوٹے گا — صرف اس کے لیے۔

مہینے گزر گئے۔ زارا نے ہر دن پہاڑوں کی چوٹی سے نیچے جھانک کر اُس کا انتظار کیا۔ موسم بدلے، درختوں نے رنگ بدلے، لیکن زارا کی امید نہ بدلی۔

ایک برفیلی صبح، جب ہر طرف خاموشی چھائی تھی، دروازے پر دستک ہوئی۔ زارا نے دروازہ کھولا تو سامنے ارحم تھا، ہاتھ میں ایک انگوٹھی اور آنکھوں میں آنسو۔ اُس نے صرف اتنا کہا:

**"میں وعدہ نبھانے آیا ہوں، کیا تم میرا ہاتھ تھامو گی؟"**

زارا کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے، اور اس نے خاموشی سے ہاتھ بڑھا دیا۔

اس دن ہنزہ کی ہوائیں بھی گواہ بن گئیں — دو سچے دلوں کی بندھن کی، ایک ایسی محبت کی جو فاصلوں، موسموں، اور وقت کو مات دے گئی

Post a Comment

0 Comments